کھوکھلا پن
آج سیٹھ صاحب کے پلازہ میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی رَش تھا۔مرد اور عورتوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔رمضان کا آغاز تھا اور سیٹھ صاحب نے حسبِ روایت اس دفعہ بھی شہر بھر کے ضرورت مندوں اور غریب لوگوں کوامداد دینے کا بندوبست کیا تھا۔سخت گرمی اور پسینے سے شرابور جسم کے ساتھ رشیدآٹے کا تھیلہ کمر پر لادکر ایک ایک شخص کو پکڑارہا تھا۔پانچ گھنٹوں کی مسلسل دوڑ دھوپ کے بعد لوگ ختم ہوگئے اور سیٹھ صاحب نے بھی سب کو کام بند کرنے کا کہا۔ رشید ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے سیٹھ صاحب کے پاس آکر بولا:”سیٹھ جی ! اس ماہ کی تنخواہ ماں کی دوائی میں خرچ ہوگئی۔آپ اگر کچھ رقم دے دیں تو گھر کے لیے کچھ سودا سلف لے لوں۔“سیٹھ صاحب نے غصیلی نگاہ سے رشید کو دیکھااور بولا :”ایک تو تم لوگ آدھا گھنٹہ کام زیادہ کیا کرلیتے ہو کہ احسان جتلانا شروع کردیتے ہو۔مہینہ ختم ہونے میں پورے دس دن باقی ہےں، تمہیں رقم دے دوں تو میں کہاں سے اتنے خرچے پورے کروں گا۔“ سیٹھ نے کہا اور اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھ کرچلاگیا۔رشید نے بہتے ہوئے آنسو صاف کیے اور آسمان کی طرف بے بسی سے دیکھنے لگا۔
یہ کہانی ، واقعہ یا قصہ شاید کسی کے لیے ایک عام سی بات ہو یاکسی کے دردِ دل کا سبب ،مگر ہے ایک تلخ حقیت۔یہ ہمارے معاشرتی رویوں کا المیہ اور ہمارے اخلاقی معیارکا کھوکھلا پن ہے کہ ہم اپنے متعلقین کواپنی ہمدردی اور نیکی کا مستحق نہیں سمجھتے۔ہم پوری امت کی فکر تو کرتے ہیں ، دوسرے ممالک اور علاقوںمیں موجود اپنے لوگوں کے حقوق کی جنگ تو لڑتے ہیں مگر ہمارا اپنا ملازم بھوکا ہے یا ساتھ والا پڑوسی تنگدستی کا شکار ہے ،اس کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں سوچا۔ایسا شخص جو برسوں سے ایک ہی جگہ پر کام کررہا ہے ،گرمی ،سردی کے سخت موسم اور اپنی جوانی کی توانائیاں ایک فیکٹری ،کارخانے یا دکان پر لگادی،بدلے میں اس کو فقط تنخواہ دے کرہی سمجھ لیا جاتاہے کہ اس کے تمام حقوق ادا ہوگیے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔نیکی اور احسان مندی اگر رب کا حکم ہے تو اسی رب کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی آخری وصیت پر عمل بھی کرنا چاہئے جس میں انہوںنے ارشاد فرمایا تھا کہ ”اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا“ جس سے معلوم ہوتاہے کہ خود سے وابستہ لوگوں کو اپنا ”د ی بیسٹ“دینا نہ صرف انسانیت کا تقاضہ ہے بلکہ یہ ان کا حق بھی ہے۔کوئی شخص جو خود کو ایک کامیاب پروفیشنل اورعظیم انسان سمجھتا ہے ،لوگ اس سے ملاقات کے لیے باقاعدہ وقت لے کر آتے ہیں مگر اس کی اخلاقی حالت یہ ہو کہ تمام لوگ اس سے دلبرداشتہ ہوں، وہ دفتر میں ہو تو ملازم اس کے جانے کی تمنا کریں ،وہ کسی تقریب میں جائے تو لوگ اس سے کترانے لگیں۔ تو نہ ایسی کامیابی کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی ایسی پروفیشنل ازم کا۔
عقلمند کہتے ہیں کہ انسان جس کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا ہے اس کا اثر بھی لے لیتاہے۔مثلاً گھوڑوں کے ساتھ رہنے والا بہادر بن جاتاہے۔ بکریوں کے ساتھ رہنے والے میں عاجزی آجاتی ہے جبکہ آج کل کے انسانوں کا زیادہ تر وقت موبائل اور کمپیوٹر کے ساتھ گزررہا ہے جو کہ بے حس چیزیں ہیں اور انہی کااثر ہے کہ آج کے انسان نے ترقیاں تو بہت کیں ، کامیابیاں بڑی بڑی حاصل کیں مگر ایک چیز پیچھے رہ گئی جس کو ”احساس“ کہا جاتاہے۔بعض ادیبوں کے نزدیک لفظِ انسان ”اُنس“ سے ماخو ذ ہے جس کا مطلب ہے کہ انسان کے اندراُنسیت ،محبت اور الفت ہوگی اوراگر یہ چیزیں نہ ہوں تو پھر ”انسان“ اپنے اصل معنی پر باقی نہ رہ سکا۔تو انسانیت کا تقاضہ یہی ہے کہ دوسروں کا احساس کیا جائے ، ان کے ساتھ بہترین سلوک کیاجائے تب ہی انسانیت اپنی معراج پہ پہنچے گی۔
بعض لوگ یہ جواز بناکراپنے ملازمین کے ساتھ نیکی نہیں کرتے کہ اس طرح سے ملازم سر پر چڑھ جاتے ہیں یا وہ کام چور بن جاتے ہیں۔تو عرض یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں نیکی کرنے کا حکم دیا ہے اب اس سے کوئی شخص غلط فائدہ اٹھاتا ہے تو یہ اس کی کم ظرفی ہے۔البتہ نیکی کرنے والے کو صلہ یقیناملتاہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اٹھایا ہوا کوئی قدم بھی ضائع نہیں جاتا۔خود سے وابستہ لوگوں پر احسان کرنے والا ،سب سے پہلے اس نیکی سے مستفید ہوتاہے۔اس طرح کہ انسان کے مزاج میں یہ بات ہے کہ وہ جس کے ساتھ نیکی کرلے تو اس کا اثر دیکھنا چاہتا ہے۔جب اپنے لوگوں کے ساتھ نیکی کی جائے گی تو ظاہر ہے کہ ان کے حالات اچھے ہوں گے اور وہ نظر آئیں گے ،جن کو دیکھ کرنیکی کرنے والے کے دل کو سکون اور طمانیت پہنچے گی۔جبکہ دوسرے لوگوں پر نیکی کرنے کا اگرچہ ثواب ضرور ملتا ہے مگر چونکہ وہ انجان ہوتے ہیں اور ان کے بہترین حالات کا علم نہیں ہوسکتا تو اپنے قریبی لوگوں پر نیکی کرنے کی صورت میں جو سکون ملتا ہے ،وہ اس صورت میں نہیں مل سکتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ ”جس بستی میں کسی شخص نے ایسی صبح کی وہ رات بھر بھوکا رہا تو اس بستی والوں سے اللہ کی حفاظت ونگرانی کا وعدہ ختم ہوجاتاہے۔“ (مصنف ابن ابی شیبہ) حدیث شریف کے یہ الفاظ اس بات پر دلیل ہیں کہ فقط اپنی ذات اور خاندان کا پیٹ پالنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ بحیثیت مسلمان اپنے آس پڑوس میں غریب اور مستحق لوگوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ا للہ کی رحمت تو برسنے کے بہانے ڈھونڈتی ہے اور ”کتے“جیسی حقیر مخلوق کوپانی پلانے پر بھی ایک عورت کی مغفرت فرمادیتی ہے۔مگر جب انسانوں میں بے حسی بڑھ جائے تو پھراس کی حفاظت ،رحمت اور برکت کے دروازے بند بھی ہوسکتے ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ فقط اپنے لیے نہیں بلکہ خود سے وابستہ تمام لوگوں کے لیے بھی جیا جائے ۔ان کو بہترین خوراک ، عمدہ لباس، مناسب سہولیات اور زندگی کی آسانیاں دی جائیں۔ معلوم نہیں کس کی دعاﺅں کی طفیل اللہ تعالیٰ ہمیں، ہماری اوقات سے بڑھ کررزق دے رہا ہے۔